غزل |
مُسکراتے ہوئے پیغام وہ کیا دیتے ہیں |
آنکھ مِلتی ہے تو شرما کے جُھکا دیتے ہیں |
لاکھ مُشتاق نظر سے وہ تغافل برتیں |
رَنگ رُخسار کے سچ بات بتا دیتے ہیں |
روز آتے ہیں سرِ بام وہ سج کر لیکن |
بیچ باریک سا پردہ بھی لگا دیتے ہیں |
حسن بیگانۂ اظہار نہیں رہ سکتا |
پھول خُوشبو سے بَہاروں کا پتہ دیتے ہیں |
ان کی ہنستی ہوئی آنکھوں سے ملیں جب آنکھیں |
بجھتی آنکھوں میں نئے خواب سجا دیتے ہیں |
بات بڑھ کر جو کبھی وصل کی نوبت آئے |
شرط لازم ہے کہ شمع کو بجھا دیتے ہیں |
راکھ کندن میں فقط ایسے بدل سکتی ہے |
آتشِ عشق کو کچھ اور ہوا دیتے ہیں |
آزمائش کے جو لمحے ہیں یہ نعمت جانو |
دوست دشمن کی یہ پہچان کرا دیتے ہیں |
نقش واضح نہیں ہو پایا ابھی تک اُس کا |
شیشۂ دل کو ذرا اور جِلا دیتے ہیں |
رب کی بخشیش کا احساں نہیں ہوتا ورنہ |
چاہنے والے بھی احسان جتا دیتے ہیں |
قرب حاصل ہو تمھارا تو اِسے چین آئے |
دِل ذَرا دیر کو پہلو میں بٹھا دیتے ہیں |
جَان چُھٹ جائے گی اِسطرح نگوڑے دِل سے |
سَیلِ ہِجراں میں شہاب اِس کو بہا دیتے ہیں |
شہاب احمد |
۱۵ اپریل ۲۰۱۹ |
معلومات