| غزل |
| مجبور لوگ نقل مکانی میں چل پڑے |
| جب بن پڑا نہ راستہ پانی میں چل پڑے |
| ڈر سے ٹھٹک گیا تھا قلم کار کا قلم |
| کردار ِچند ایسے کہانی میں چل پڑے |
| سوچا نہ تھا کہ خیر سے جائیں گے ہم کہاں |
| شوریدہ سر تھے جوشِ جوانی میں چل پڑے |
| جب تشنگی خلوص و محبت کی بڑھ گئی |
| ہم پھر پلٹ کے بستی پرانی میں چل پڑے |
| دل نے انھیں خلوص سے سینچا ہے رات دن |
| کچھ لوگ زخم دے کے نشانی میں چل پڑے |
| آنکھوں کی ٹھنڈکوں کو چرا کر جواد جی |
| تم جلد جلد عین جوانی میں چل پڑے |
| طوفاں سے مٹ نہ جائیں گی بستی کی رونقیں |
| شورش اٹھا کے دل کی جو پانی میں چل پڑے |
| اشعار پھر شہاب جی لب سے امڈ پڑے |
| سیلِ رواں کی طرح روانی میں چل پڑے |
| شہاب احمد |
| ۲۸ مارچ ۲۰۲۱ |
معلومات