غزل |
برف کے پگھلنے تک منتظر رہوں گا میں |
کونپلیں نکلنے تک منتظر رہوں گا میں |
سردیوں کے موسم کی صبر آزما شب میں |
روشنی نکلنے تک منتظر رہوں گا میں |
بارشوں سے مٹی میں زندگی نمو پائے |
بدلیاں برسنے تک منتظر رہوں گا میں |
التفات کی نظریں، جب حضور فرصت ہو |
آئینے چٹخنے تک منتظر رہوں گا میں |
دوستی محبت کا اِک پیام ہے سب کو |
ہاتھ آگے بڑھنے تک منتظر رہوں گا میں |
وقت کی یہ فطرت ہے ایک سا نہیں رہتا |
وقت کے بدلنے تک منتظر رہوں گا میں |
لطف ہی نہیں آتا پُر سکون پانی میں |
موج کے اُچھلنے تک منتظر رہوں گا میں |
کوچ کا بِگل گرچہ بج رہا ہے ہر جانب |
مشعلوں کے جلنے تک منتظر رہوں گا میں |
زُلفِ یار جیسے ہیں زِندگی کے پیچ و خم |
الجھنیں سلجھنے تک منتظر رہوں گا میں |
شَوق سے شہاب احمد عہد سَو کئے لیکن |
اَب تِرے مُکرنے تک منتظر رہوں گا میں |
شہاب احمد |
۲۱ مارچ ۲۰۲۳ |
معلومات