غزل
جھوٹی مطلب کی دنیا میں ڈھونڈے سے مخلص یار نہیں
پر ہم نے سچا پیار کیا اس سچ سے بھی انکار نہیں
انمول محبت کا گہنا بے مول کسی کو سونپ دیا
اک عاشق دل کا سودا تھا یہ دنیا کا بیوپار نہیں
ہم محفل محفل ہنستے ہیں پر تنہائی میں روتے ہیں
سچ پوچھو تو اس بستی میں اک ہم جیسا جی دار نہیں
ان بھیڑ بھرے چوراہوں سے ہر طور گزر کے جانا ہے
مشکل ہے جیون کی منزل کچھ رستہ “ باروں بار ” نہیں
کس جا جا کر سر پھوڑوں میں اب وحشت کے اکسانے پر
جس جانب دیکھو ٹیلے ہیں اس صحرا میں دیوار نہیں
اب بھی ایسے سر کی یاں پر کچھ اُونچی قیمت چُکتی ہے
جو جُھگیوں میں جُھک جاتا ہو پر شاہوں کے دربار نہیں
رنڈی کو گالی دیتے ہو پر شرم تمھیں کب آتی ہے
کیا دولت کی چَھن چَھن میں بھی پائل جیسی جھنکار نہیں
اک بات شہاب احمد بولوں تم دل پر ہرگز مت لینا
سو نظمیں غزلیں گیت لکھو پر ہم جیسے فنکار نہیں
شہاب احمد
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱

0
134