اب اپنی جان سے بے زار ہو گئے ہم تو |
خود اپنی راہ کی دیوار ہو گئے ہم تو |
جو ہنس کے ملتے تھے وہ اب نظر چراتے ہیں |
وہ کہہ رہے ہیں کہ آزار ہو گئے ہم تو |
اکیلے بیٹھ کے اب انتظار کرتے ہیں |
نہیں ہیں دوست اب نادار ہو گئے ہم تو |
بہت سے رنج تھے لیکن یہ آنکھ نم نہ ہوئی |
اب ایسے کھیل میں فنکار ہو گئے ہم تو |
حصارِ جسم اب ٹوٹا ہے اس طرح شاہدؔ |
کہ اپنی ذات میں بازار ہو گئے ہم تو |
معلومات