اب اپنی جان سے بے زار ہو گئے ہم تو
خود اپنی راہ کی دیوار ہو گئے ہم تو
جو ہنس کے ملتے تھے وہ اب نظر چراتے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں کہ آزار ہو گئے ہم تو
اکیلے بیٹھ کے اب انتظار کرتے ہیں
نہیں ہیں دوست اب نادار ہو گئے ہم تو
بہت سے رنج تھے لیکن یہ آنکھ نم نہ ہوئی
اب ایسے کھیل میں فنکار ہو گئے ہم تو
حصارِ جسم اب ٹوٹا ہے اس طرح شاہدؔ
کہ اپنی ذات میں بازار ہو گئے ہم تو

0
59