رنگ موسم کے بدلتے ہی اتر جاتے ہیں
لوگ ملتے ہیں گھڑی بھر میں بچھڑ جاتے ہیں
گھر سے ہر صبح نکلتے ہیں نئے خواب لیے
بیچ کر خواب یونہی شام کو گھر جاتے ہیں
درد کے مارے حرم کو تو نہیں جائیں گے
پھر بھی کیوں پوچھتے ہو روز کدھر جاتے ہیں
رات کو وحشتیں خوابوں میں اتر آتی ہیں
چاند کو دیکھ کے ساگر بھی بپھر جاتے ہیں
اتنے سہمے ہوئے رہتے ہیں کہ شاہدؔ اب ہم
کوئی تنکا بھی ہلا دے تو بھی ڈر جاتے ہیں
ق
ایک الجھن جو سلجھ ہی نہیں پائی اب تک
لوگ مرتے ہیں تو مر کر وہ کدھر جاتے ہیں

29