میں بندھن سے کیسے رِہا ہو گیا
میں خود آج اپنی سَزا ہو گیا
جو وعدہ کیا تھا نِبھا ناں سکا
میں خود سے بھی اب بے وفا ہو گیا
مرے ساتھ کیا ماجرا ہو گیا
میں کیوں غم میں اب مبتلا ہو گیا
میں تقدیر کی اک خطا ہو گیا
میں اب بُھولی بِسری صدا ہو گیا
جو کہتا تھا میرے بِنا کچھ نہیں
وہ دشمن کا اب آشنا ہو گیا
مرے ساتھ کیا ماجرا ہو گیا
میں کیوں غم میں اب مبتلا ہو گیا
جسے خود سے میں نے تراشا یہاں
وہ پتھر مرا اب خدا ہو گیا
محبت سمجھتا تھا اک کھیل ہے
مجھے ہار کر پارسا ہو گیا
مرے ساتھ کیا ماجرا ہو گیا
میں کیوں غم میں اب مبتلا ہو گیا

0
13