زندگی کی یہ مات کچھ بھی نہیں
مر کے ہو گی نجات کچھ بھی نہیں
روح اک من گھڑت کہانی ہے
اور یہ قیدِ حیات کچھ بھی نہیں
مسئلہ صرف ہار مون کا ہے
دل کی یہ واردات کچھ بھی نہیں
ذات میری تمام تحتِ شعور
پھر جو ظاہر ہے ذات کچھ بھی نہیں
ہر کسی کا یہاں پہ اپنا سچ
سچ کی پھر تو بسات کچھ بھی نہیں
گھر میں رہتے ہیں اجنبی کی طرح
ایک دوجے کا ساتھ کچھ بھی نہیں
شاعری پیٹ بھر نہیں سکتی
اپنی اوقات یاں پہ کچھ بھی نہیں

0
65