ذرا موسم بدلنے دو |
ہمیں کچھ دیر چلنے دو |
نئے موسم میں سوچیں گے |
ہمارے آپشن کیا ہیں |
کہاں قطبی ستارہ ہے |
ہمیں کس سمت جانا ہے |
کہاں تک ساتھ چلنا ہے |
کہاں رستہ بدلنا ہے |
اگر یہ فیصلہ ہو گا |
اسی رستے پہ رہنا ہے |
کہ جس پر ان گنت صدیوں سے |
ہجومِ غافلاں محوِ سفر ہے |
وہ اپنی منزلوں سے بے خبر ہے |
بڑا خوش باش مصروفِ سفر ہے |
تو پھر وعدہ رہا تم سے |
تمہارے ساتھ جائیں گے |
یہ وعدہ ہم نبھائیں گے |
فقط سر کو جھکا لیں گے |
زباں پر قفل ڈالیں گے |
دماغوں کو سلا لیں گے |
خود اپنی لاش کاندھے پر |
خوشی سے ہم اٹھا لیں گے |
مقدر میں جہاں تک ہے |
سفر کی آخری حد تک |
تمہارے ساتھ جائیں گے |
مگر |
اگر یہ فیصلہ ہو گا |
ہمیں رستہ بدلنا ہے |
تو پھر یہ سوچنا ہو گا |
تمہیں کیسے بتائیں ہم |
بہت سنسان رستہ ہے |
بہت ویران رستہ ہے |
بہت کمبخت رستہ ہے |
یہ رستہ ہے کہ شیشہ ہے |
دکھائے گا ان عفریتوں کے چہرے |
جو اپنے من میں ہم نے پال رکھے ہیں |
ہمیں خود سے لڑائے گا |
کہے گا مار ڈالو |
من جو شیطان تم نے پال رکھے ہیں |
ادھیڑے گا کئی سالوں سے جو بہروپ |
چہرے پر چڑھا رکھے ہیں |
دکھائے گا وہ سارے جھوٹ |
جو خود سے بولتے آئے ہیں |
یہ رستہ وہ ہے جس پر رفتہ رفتہ |
مشکلیں بڑھتی ہی جائیں گی |
اور آخر میں |
جب ہم جھوٹوں سے بہروپوں سے عفریتوں سے |
من کو پاک کر لیں گے |
تو پھر اس آگہی کی روشنی من میں سمائے گی |
مگر یہ بھی سنا ہے - کہ اس رستے پہ چل کے چند ہی منزل پہ پہنچے ہیں |
یہ رستہ وہ ہے جو - بس چند لمحوں میں - مسافر کی تیاری بھانپ لیتا ہے |
بہت سفاک ہے اور رحم سے عاری یہ رستہ ہے |
مسافر کی برائے نام سی کمزوری کو درگزر کرنا |
جبلت میں نہیں اس کی |
بہت ہی بے صبر ہے حزف کر دیتا ہے لمحوں میں |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
یہی اب فیصلہ ہے اب ہمیں رستہ بدلنا ہے |
ہمیں اب سوچنا ہے |
تمہیں کیسے بتائیں ہم |
کہ تم پیدا ہوئے تھے بس اسی رستے پہ چلنے کو |
کہ جس پر ان گنت صدیوں سے |
ہجومِ غافلاں محوِ سفر ہے |
وہ اپنی منزلوں سے بے خبر ہے |
بڑا خوش باش مصروفِ سفر ہے |
نجانے ہم بھٹک کر کیوں تمہاری راہ آ نکلے |
اور اب جانا ہے ہم کو راستہ آواز دیتا ہے |
معلومات