جَذْبات کا فرات ابھی ہے ابھی نہیں
دل کی یہ واردات ابھی ہے ابھی نہیں
موقع ہے پیار کا ابھی اظہار کر ہی دیں
ان کا یہ التفات ابھی ہے ابھی نہیں
رفتار گردشوں کی بہت تیز ہو گئی
کیسا حصارِ ذات ابھی ہے ابھی نہیں
چہرے پہ ابتسام مگر من ہے کھوکھلا
یہ خواہشِ نشاط ابھی ہے ابھی نہیں
خوشیاں جو عارضی ہیں تو پھر دکھ بھی عارضی
غم کی سیاہ رات ابھی ہے ابھی نہیں

0
28