جو جل رہا تھا آخری دیا اسے بجھا گیا
وہ گھرسے جاتے جاتے در کو قفل بھی لگا گیا
بہت گھنے سے پیڑ کے تنے پہ اس کا نام تھا
وہ اس شجر کی ٹہنیوں کو آگ ہی لگا گیا
فلک سے تارا ایک بھی میں توڑ کے نہ لا سکا
مروتوں کا بوجھ اُس کا ، سر مرا جھکا گیا
کہا تھا اس سے اب اکیلے زندگی گذار لیں
جدا ہوا تو آنسوؤں کا زہر وہ پلا گیا
قبا جنوں کی ہم پہن کے راستے پہ چل پڑے
مگر وہ آندھیاں چلیں جنون ہی چلا گیا
تباہ اس طرح کبھی یہ زندگی لگی نہ تھی
مجھے یہ لگ رہا ہے زندگی سے اب خدا گیا

0
27