آسماں میں جھانک کر دیکھا کہ تارے ہیں کثیر
کس قدر وسعت جہاں میں اور میں کتنا حقیر
آدھی دنیا گھوم کر آواگون کچھ یوں ہوا
میں سمجھتا تھا کہ سب کچھ ہے مگر نکلا فقیر
اب سمجھ آیا جو کرنا تھا وہ کیوں ناں کر سکا
میں کہاں آزاد تھا میں تو یہاں تھا اک اسیر
کیوں مجھے واعظ بتائے کیا غلط ہے کیا صحیح
چاہتا گر یہ خدا تو پھر نہ دیتا یہ ضمیر
میں تو پتلا اک خطا کا نہ ولی میں نہ سروش
ایک معمولی سی غلطی پر یہ کھینچی کیوں لکیر

0
26