جنوں میں اب کوئی انکار نہیں چاہتا میں
راستے میں کوئی دیوار نہیں چاہتا میں
اس نے کرنا ہے تو اب تھوڑے سلیقے سے کرے
پیار میں اب دلِ بیزار نہیں چاہتا میں
کون کہتا ہے فقط میں نے خوشی ہی مانگی
سچ تو یہ ہے گلِ بے خار نہیں چاہتا میں
مجھے عزت سے بہت تھوڑے سے لقمے درکار
سیم و زر کے کوئی انبار نہیں چاہتا میں
منتظر ہیں مرے دشمن مری کمزوری کے
راستہ ایک بھی ہموار نہیں چاہتا میں
پیار کی ایک نظر چاہیے شاہدؔ مجھ کو
اس کے لب سے کوئی اظہار نہیں چاہتا میں

31