گِرد آنکھوں کے ابھی ہالے پڑے ہیں
اور پاؤں میں فقط چھالے پڑے ہیں
تُھڑ دلے ہو بد دلی سے کچھ نہ ہو گا
عشق میں تو ہر قدم جوالے پڑے ہیں
دنیا والے چاند پر بیٹھے ہوئے ہیں
اور اپنی سوچ پر تالے پڑے ہیں
سوچتا ہوں اُس کو کیوں دِکھتا نہیں ہوں
شاید اس کی آنکھ میں جالے پڑے ہیں
جو ملا شاہدؔ وہ آخر بھانڈ نکلا
کیسی کیسی جنس سے پالے پڑے ہیں
ق
بات ہو تو مسئلے کا حل نکالیں
درمیاں میں آج کل سالے پڑے ہیں

0
14