ہم اپنے عمل پر نادم ہیں وہ قصہ اب دہرائیں کیا |
پامال کیا خود کو ہم نے تقدیر پہ اشک بہائیں کیا |
خواہش تھی چاند ستاروں کی پر فقر تھا حائل راہوں میں |
تعبیر نہ جن کی ہو پائی ان خوابوں کو دفنائیں کیا |
جس کا بھی تھاما ہاتھ یہاں وہ آدھے رستے چھوڑ گیا |
مایوس بہت ہیں لوگوں سے اب اس دل کو سمجھائیں کیا |
وہ روگ جو ہم کو لاحق ہے جینے بھی نہ دے مرنے بھی دے |
جو غم اندر سے چاٹ گیا اب اس کو باہر لائیں کیا |
معلومات