یہاں ہم بے زباں بیٹھے ہوئے ہیں
کہ ہم نوکِ سناں بیٹھے ہوئے ہیں
جنہیں سونپا گیا فرضِ حفاظت
جہاں تھے ہم وہاں بیٹھے ہوئے ہیں
مصاحب شاہ کے کیوں آج دیکھو
ہمارے درمیاں بیٹھے ہوئے ہیں
ہوا کو رخ بدلنا تھا ابھی کیوں
کہ کھولے بادباں بیٹھے ہوئے ہیں
یہاں محفوظ عصمت مال و دولت
یہاں بادہ کشاں بیٹھے ہوئے ہیں
مروت کا یہاں پر درس ہو گا
یہاں پیرِ مغاں بیٹھے ہوئے ہیں
بھٹک کر راہ سے ہم آج شاہدؔ
یوں ہو کے رائیگاں بیٹھے ہوئے ہیں

0
37