بہت ہے جبر اس جہاں میں لیکن جو ہو سکے اختیار رکھنا
میں تم سے اب یہ نہیں کہوں گا کہ مجھ پہ تم اعتبار رکھنا
یاں خود فریبی کا بھی اثر ہے اور اس پہ یاداشت مختصر ہے
جو ظلم میں نے کیے ہیں تم پر ہمیشہ ان کا شمار رکھنا
سنو صدا جو تمہارے دل کی یہ ابتدا ہے یہ انتہا ہے
زمانہ تم کو کہے گا کچھ بھی نہ اس پہ تم اعتبار رکھنا
یہاں تغیر ہی زندگی ہے یہاں نمو میں ہی بندگی ہے
سکون دل کو کبھی نہ دینا یاں دل کو تم بے قرار رکھنا
یہ سچ ہے انسان جانور ہے مگر سماجی وہ جانور ہے
وفا کے رشتے بنا کے رکھنا پھر ان پہ تم انحصار رکھنا
بچھڑ رہے ہو میں اب نہ روکوں گا یہ تمہارا ہی فیصلہ ہے
یہی سبق ساری عمر کا ہے کبھی نہ دل کو فگار رکھنا

0
33