ہم نہ جاتے تو یہاں سے یہ اجالے جاتے
پھر اندھیرے ہی اندھیرے یہاں پالے جاتے
یہ یقیں تھا کہ مقدر میں لکھا تھا اپنے
اپنے گھر سے نہ نکلتے تو نکالے جاتے
کاسۂ درد کا یہ چھید بچا لایا ہے
اتنے دکھ درد کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھنور سے جو نہ لڑتے تو یہ امکان بھی تھا
ہم کنارے پہ کسی روز اچھالے جاتے
پاؤں سے خون بہا ہے تو سمجھ میں آیا
چھاؤں میں بیٹھ کے پاؤں کے نہ چھالے جاتے
یہ تو اچھا ہوا اُس دور میں موجود نہ تھے
آگِ نمرود میں شاہدؔ ہمیں ڈالے جاتے
ق
ہم ہی تنہا تھے اگر اس کو ضرورت پڑتی
جوک در جوک وہاں چاہنے والے جاتے

0
7