بات بے بات یہاں خود کو رلایا میں نے
روتے چہروں کو مگر ہنسنا سکھایا میں نے
اُس کا کہنا ہے کہ میں نے اُسے بد نام کیا
اپنا ہر غم یہاں خود سے بھی چھپایا میں نے
وہ یہ کہتا ہے کہ میں بن نہ سکا اچھا رفیق
اُس کا سامان بھی رستے میں اٹھایا میں نے
مجھ کو ہر موڑ پہ لاچار وہی چھوڑ گیا
اب وہ کہتا ہے کہ کیوں اُس کو ستایا میں نے
یہ خبر تھی کہ وہ ہمدرد نہیں ہے میرا
پھر بھی ہر بار اُسی کو ہی بلایا میں نے
اُس کی منزل مرے گھر کی کبھی دہلیز نہ تھی
پھر بھی ہر رُت اُسی گھر کو ہی سجایا میں نے
اِس محبت نے تو ہر چیز چھڑا دی شاہدؔ
خود کو اب کر دیا خود سے ہی پرایا میں نے

0
23