اس گلی سے چلو چپ چاپ گزر جاتے ہیں |
اپنے ماضی سے پھر اک بار مکر جاتے ہیں |
اس کی ہر یاد رواں ہے مری یادوں میں کہیں |
کس طرح لوگ یہاں دل سے اتر جاتے ہیں |
مرہمِ وقت کی یہ جھوٹی تسلی تو نہ دو |
لگ کے اک بار کہاں زخمِ جگر جاتے ہیں |
آج بھی کوئی خریدار نہ آیا شاہدؔ |
شام ہونے کو ہے اب لوٹ کے گھر جاتے ہیں |
یہاں رہنے کا سلیقہ نہیں سیکھے شاہدؔ |
اب یہ سوچا ہے کہ دنیائے دگر جاتے ہیں |
معلومات