تسلسل سے ستانا چل رہا ہے
وہی رشتہ پرانا چل رہا ہے
وہی چہرے بدل کر آ رہے ہیں
نیا لیکن ترانہ چل رہا ہے
خدا کے نام پر لوٹا تھا پہلے
وطن کا اب بہانہ چل رہا ہے
جسے الہام کا درجہ دیا تھا
حقیقت میں فسانہ چل رہا ہے
کوئی امید اب باقی نہیں ہے
کہ سر پر اب نشانہ چل رہا ہے
میں جتنا تیز بھی چلتا ہوں شاہدؔ
قدم آگے زمانہ چل رہا ہے

0
11