وہ نرم مجھ میں نشانہ تلاش کرتا ہے
وہ دل پہ داغ پرانا تلاش کرتا ہے
بہت دنوں سے میں خاموش ہوں مگر پھر بھی
لڑائی کا وہ بہانہ تلاش کرتا ہے
ذرا سی بات یوں پھیلی ہے آگ کی مانند
زمانہ اس میں فسانہ تلاش کرتا ہے
نہ سنگ اس پہ اچھالو وہ جذب میں ہے ابھی
وہ سر ٹکانے کو شانہ تلاش کرتا ہے
مری مثال اس مورکھ پرندے جیسی ہے
اندھیری رات میں دانہ تلاش کرتا ہے
میں کب کا چھوڑ چکا صحرا نوردیاں شاہدؔ
میں وہ ہوں جس کو ویرانا تلاش کرتا ہے

0
37