ویرانئ حیات سے ہستی نہیں رہی
ساقی تری شراب میں مستی نہیں رہی
افراطِ زر بھی بڑھ گیا قحط الرّجال بھی
پیتے تھے جو شراب وہ سستی نہیں رہی
ہر شہر اجنبی ہوا اور لوگ اجنبی
سودائیوں کی اب کوئی بستی نہیں رہی
مذہب کے نام پر فقط اب کاروبار ہے
اب بت ہوں یا خدا ہو پرستی نہیں رہی
کردار کے قیاس کی میزان کیا ہوئی
لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ پستی نہیں رہی

0
28