بلا رہی تھی کہیں سے مجھے صدا اس کی |
ابھی تو بھول نہ پایا تھا میں جفا اس کی |
کچھ اتنے پیار سے وہ جھوٹ بول جاتا تھا |
نجانے کیوں مجھے بھاتی تھی یہ ادا اس کی |
وفا کے باب میں کچھ بھی نہیں لکھا اس نے |
مرے کیوں پاؤں کی زنجیر تھی وفا اس کی |
مجھے تو سنگِ رعونت٭ نے توڑ ڈالا تھا |
بہت ہی مہنگی پڑی اُس کو بھی انا اس کی |
خدا بھی اس کی طرف تھا لگا یہی مجھ کو |
ڈبو گئی مجھے ساحل پہ بد دعا اس کی |
٭ Stone of false pride |
معلومات