بلا رہی تھی کہیں سے مجھے صدا اس کی
ابھی تو بھول نہ پایا تھا میں جفا اس کی
کچھ اتنے پیار سے وہ جھوٹ بول جاتا تھا
نجانے کیوں مجھے بھاتی تھی یہ ادا اس کی
وفا کے باب میں کچھ بھی نہیں لکھا اس نے
مرے کیوں پاؤں کی زنجیر تھی وفا اس کی
مجھے تو سنگِ رعونت٭ نے توڑ ڈالا تھا
بہت ہی مہنگی پڑی اُس کو بھی انا اس کی
خدا بھی اس کی طرف تھا لگا یہی مجھ کو
ڈبو گئی مجھے ساحل پہ بد دعا اس کی
٭ Stone of false pride

28