عجیب زندگی ملی
رکاوٹیں تھیں ہر طرف
یہ جسم کی جو قید تھی
میں اس سے اب نکل گیا
میں اب زماں مکاں سے دور
کہیں پہ لا مکاں میں ہوں
عجیب مایہ جال تھا
یہ زندگی ! خبر نہ تھی
میں قید میں تھا ہر گھڑی
وہ رات دن کی قید تھی
وہ موسموں کی قید تھی
وہ بھوک کی بھی قید تھی
وہ پیاس کی بھی قید تھی
محبتوں کا حبس تھا
وہ نفرتوں کی قید تھی
سماج کی رواج کی
دھرم کی بھی گھٹن بہت
تھی قید اعتقاد کی
شراب کی ممانعت
سماع کی ممانعت
تھی رقص کی ممانعت
عزیزِ جاں سے بول چال
اب اس کی بھی ممانعت
کروں تو کیا کروں یہاں
یہی میں سوچتا رہا
سلجھ سکا نہ مسئلہ
جنم جنم تھا پائمال
فرار کا فقط یہاں
بس اک یہی تھا راستہ
جفا کا ساتھ دوں یہاں
مگر میں یہ نہ کر سکا
یہ ہتھکڑی حیات کی
اتار کر یاں پھینک دی

0
54