| یہاں پہ قرب میں سارا ملال رکھا ہے |
| ہر ایک رشتے میں آہن کا جال رکھا ہے |
| خوشی کی حرص میں کیوں لوگ بھول جاتے ہیں |
| خدا نے درد میں کتنا جمال رکھا ہے |
| وہ جب گیا تو سبھی کچھ وہ لے گیا میرا |
| بس اُس کا درد ہی اِس دل میں پال رکھا ہے |
| یہ ارتقا کا سفر دائروں میں ممکن ہے |
| ہر اک عروج کے آگے زوال رکھا ہے |
| اجل کا کب سے مجھے انتظار ہے شاہدؔ |
| یہ سانس اس نے کیوں میرا بحال رکھا ہے |
معلومات