یہاں پہ قرب میں سارا ملال رکھا ہے
ہر ایک رشتے میں آہن کا جال رکھا ہے
خوشی کی حرص میں کیوں لوگ بھول جاتے ہیں
خدا نے درد میں کتنا جمال رکھا ہے
وہ جب گیا تو سبھی کچھ وہ لے گیا میرا
بس اُس کا درد ہی اِس دل میں پال رکھا ہے
یہ ارتقا کا سفر دائروں میں ممکن ہے
ہر اک عروج کے آگے زوال رکھا ہے
اجل کا کب سے مجھے انتظار ہے شاہدؔ
یہ سانس اس نے کیوں میرا بحال رکھا ہے

0
26