| مجھ کو حالات نے ڈبویا تھا |
| دکھ میں میرے خدا بھی رویا تھا |
| آج سب کچھ لٹا کے چین سے ہوں |
| ایک مدت ہوئی نہ سویا تھا |
| زہر تھا اپنی نسل کی جڑ میں |
| بیج ایسا کبھی نہ بویا تھا |
| غم جو تم نے دیا عزیز بہت |
| اس کو ہر شعر میں سمویا تھا |
| پیاس اتنی تھی لب چٹکتے تھے |
| آنسوؤں سے انہیں بھگویا تھا |
| زخم ناسور بن گیا شاہدؔ |
| غم کی بارش میں اس کو دھویا تھا |
معلومات