مجھ کو حالات نے ڈبویا تھا
دکھ میں میرے خدا بھی رویا تھا
آج سب کچھ لٹا کے چین سے ہوں
ایک مدت ہوئی نہ سویا تھا
زہر تھا اپنی نسل کی جڑ میں
بیج ایسا کبھی نہ بویا تھا
غم جو تم نے دیا عزیز بہت
اس کو ہر شعر میں سمویا تھا
پیاس اتنی تھی لب چٹکتے تھے
آنسوؤں سے انہیں بھگویا تھا
زخم ناسور بن گیا شاہدؔ
غم کی بارش میں اس کو دھویا تھا

0
7