چین بس لمحۂ ناگوار میں ہے
درد جو چاہیے وہ پیار میں ہے
ایک پل کا فراق لا محدود
وقت کب میرے اختیار میں ہے
گِردا گِرد آندھیاں ہیں محوِ رقص
چہرہ تو اُس کا اب غبار میں ہے
دل ہے بے چین دردِ فرقت کو
سکھ کہاں اس پہ اعتبار میں ہے
جو سرور اس دفع خزاں میں تھا
مزا اتنا کہاں بہار میں ہے
شہر مجھ کو نگل گیا شاہدؔ
پھر بھی صحرا کیوں انتظار میں ہے

0
23