بے چین سا پھرتا ہے پریشان سا کیوں ہے
تو اپنے ہی گھر میں یہاں مہمان سا کیوں ہے
صحرا میں جو رونق تھی یہاں کب ہے میسر
یہ شہر ہمارا بڑا ویران سا کیوں ہے
بہتا رہا خس کی طرح تو سیلِ بلا میں
پھر بھی تو ابھی تک بڑا نادان سا کیوں ہے
اس بات کا ادراک کبھی ہو نہیں پایا
خالق ہے اگر وہ تو پھر انسان سا کیوں ہے
تخلیق میں پھر اس سے کمی رہ گئی کوئی
انسان بنایا تھا تو حیوان سا کیوں ہے
اک میں ہی فقط اس کی حمایت میں کھڑا ہوں
شاہدؔ وہ مجھے دیکھ کے حیران سا کیوں ہے

0
20