نہ تھی حیا آنکھوں میں، حجاب کیا دیتے |
وہ خار دار تھے کامِل، گلاب کیا دیتے |
نہ ایک بوند تو دریاؤں سے کبھی ہے ملی |
تمہارے شہر کی رہ کے سراب کیا دیتے |
جسے کہ نام و نسب سے کوئی لگاؤ نہیں |
ملنگ ایسے کو پھر ہم خطاب کیا دیتے |
مجھے نہ سُر کی سمجھ ہے نہ ہی ہے تالوں کی |
وہ میرے ہاتھ میں دَف اور رباب کیا دیتے |
وجودِ زن کو تو سب نے ہی یاں سراہا ہے |
تو شرحِ حُسن کو ڈھکنے نقاب کیا دیتے |
شکر کرو اللّٰہ بے نیاز ہے ورنہ |
عنایتوں کا تم اس کے حساب کیا دیتے |
وہ مانگ لیتا اگر تم سے قیمتی تحفہ |
بتاؤ! درد کہ آنسو کہ خواب کیا دیتے |
معلومات