ہم نے اکثر ہے پڑھا، یار دغا دیتے ہیں
ایسا لکھتے ہوئے فنکار، دغا دیتے ہیں
یار جو ہوتے ہیں، تا عمر بدلتے ہی نہیں
تم ہی کہہ دو، کبھی غم خوار دغا دیتے ہیں؟
جب بھی لگتا ہے کہ اب یار بدلنے ہیں لگے
اس گھڑی، اپنے یہ افکار دغا دیتے ہیں
روشنی بڑھنے پہ سایہ جو فنا ہوتا ہے
تو کیا، سائے کو اشجار دغا دیتے ہیں؟
وصل کے لمحوں میں جو ہجر کے بارے سوچیں
ایسے ہی لوگوں کو کردار دغا دیتے ہیں
آؤ! سمجھاؤں کہ صدیوں سے یہی ہوتا ہے
حسنِ یوسف کو پرستار دغا دیتے ہیں
قوم تو بنتی ہے صدیوں کی رفاقت سے مگر
مال کی چاہ میں غدار دغا دیتے ہیں

0
8