مِری ناموس پر نظر اُس کی
اور کرتا رہوں قدر اُس کی؟
عصمتیں بیچ کر وطن بھر کی
عیش میں زندگی بسر اُس کی
تھا جو معمور بس حفاظت پر
ہے سمجھتا کہ ہر ڈگر اُس کی
اب بھی طاقت کا زعم ہے اُس کو
یہی غلطی تھی پیش تر اُس کی
اُس نے سوچا کہ کاٹ ڈالے مجھے
اِس سے پہلے کہ لُوں خبر اُس کی
اپنے بازو وہ خود ہی کاٹے ہے
یہی عادت ہے پُر خطر اُس کی
اب محافظ اُسے نہ مانے کوئی
نہ رہی بات پُر اثر اُس کی

1
84
زبردست، بچ کے رہیں، کہیں اندر نہ کر دیں آپ کو۔