جب سے ہوا ہے دِل مِرا بیمارِ تمنا |
تم ہو، بس تم ہی تو ہو درکارِ تمنا |
ادراک اپنے ہونے کا مجھ کو ہے کہاں اب |
سوچوں میں مِرے اب کے ہیں افکارِ تمنا |
ہو پھول گو کاغذ کا، کرنا تو مجھے ہے |
بے رنگ خزاں میں بھی اظہارِ تمنا |
شاموں میں جاڑے کی، پسینے سے شرابور |
دِل میں یوں دہکتا ہے انگارِ تمنا |
دھرتی پہ دے مارے جو مسجودِ ملائک |
ایسا ہی جیون میں ہے کردارِ تمنا |
میں آئینے کے سامنے کر دیتا اسے ہوں |
کرنا گر ہے چاہتا دیدارِ تمنا |
ہے کتنا ہی مجبور وہ، یہ دیکھ مصدق |
جو کر رہا ہے آج بھی انکارِ تمنا |
معلومات