آ ستمگر یوں گفتگو کر لیں
آج ہر بات رو برو کر لیں
کس نے دھرتی کو خوں پلایا ہے
فیصلہ اے مِرے عدو کر لیں
اب تو ڈر لگتا ہے محافظ سے
آؤ حفظانِ آبرو کر لیں
وقت چہرے سبھی دکھائے گا
چاہے پردے چہار سُو کر لیں
بخششیں قاتلوں کی ہوتی نہیں
بھلے توبہ وہ با وضو کر لیں
ظلم سہنا بھی ظلم ہوتا ہے
ڈٹ کے لڑنے کی جستجو کر لیں
ہم پہ لازم ہے قوم کی خدمت
آئیے خود کو تو سرخرو کر لیں

1
18
ماشااللہ بہت پیارا کلام لکھا ہے