جو ہماری تھی آرزو کرتی |
کاش ہم سے بھی گفتگو کرتی |
ہر سُو خاموشیاں نہ چھا جاتیں |
وِرد میرا جو خوش گُلو کرتی |
کیوں نہ مہتاب سی ہمیں لگتی |
روشنی تھی چہار سُو کرتی |
تھا عجب سا نشہ نگاہوں میں |
آنکھ کو جام اور سُبو کرتی |
ہم نے خود کو خدا سمجھنا تھا |
تھی محبت وہ باوضو کرتی |
نوچ لاتے ہیں پتّیاں گل کی |
گر طلب ہے وہ رنگ و بُو کرتی |
مال و زر کی ہوّس جو پیدا ہو |
اپنوں کو بھی ہے پھر عدُو کرتی |
ہوتی رسوا کبھی نہ قوم مری |
جو کبھی فکرِ آبرو کرتی |
بیچ ڈالی جو قوم نے ہے خودی |
اب تقاضا ہے کُو بہ کُو کرتی |
معلومات