آؤ اک دو کہانیاں بُن لیں
ہم سنائیں ہمیں، ہمیں سُن لیں
وصل در آئے ذکر ہجراں میں
گردش وقت، یوں توازُن لیں
نکہتِ گل نہیں مقدر جو
اپنے حصے کے خار ہی چُن لیں
جبکہ آسان ہے بچھڑنا یوں
کیوں بھلا آپسی تعاون لیں
درد والوں نے ہچکیاں باندھی
شامِ فرقت ہے کونسا دُھن لیں
جو بھی ہونا ہے ہو ہی جائے گا
چھین کر کیا خدا سے ہم کُن لیں!
ہجرت آباد ہے وطن شؔیدا
فکرِ تہذیب کیا تمدن لیں

0
5