اپنے اپنے ہم نے اپنے بدل ڈالے
بے چہروں کی طرح ہی چہرے بدل ڈالے
کھینچا تانی کرداروں میں آنی تھی
وقت نے بھی قرطاس پہ قصے بدل ڈالے
رات گئے اک دستک گھر گھر پھرتی تھی
دروازوں نے اٹھ کر کتبے بدل ڈالے
اچھائی کی دوڑ میں ہم سب شامل تھے
دوڑ نے کتنے کتنے اچھے بدل ڈالے
رفتہ رفتہ چاندی اتری گیسوں پر
حسن نے دھیرے دھیرے نخرے بدل ڈالے
ہم پر واجب ہونا ہی تھا گلے ملنا
ان بانہوں نے گلے ہی کس کے بدل ڈالے
اُس کی نیند سے شؔیدا جاگیں، جاں لیوا
آخر ہم نے اپنے ہی سپنے بدل ڈالے

67