*غزل*
خشک دریا تھا آب تھا ہی نہیں
آنکھ کھولی تو خواب تھا ہی نہیں
اب تلک جو پڑھا سنا سمجھا
زندگی تیرا باب تھا ہی نہیں
آخری خط اُسی کا آیا تھا
اور خط میں جواب تھا ہی نہیں
خوشبؤں کی کتاب تک کھولی
کوئی سوکھا گلاب تھا ہی نہیں
خالی دیوار تک رہا تھا میں
آئینہ دستیاب تھا ہی نہیں
تشنگی کا غبار تھا پھیلا
دشت زادے سراب تھا ہی نہیں
ہوش شیدؔآ ہم ہی گنوا بیٹھے
بام پر ماہتاب تھا ہی نہیں
*علی شیدؔآ*

0
111