اچھا ہوا کہ بات بگڑ کر بنی نہیں
بنتی نہیں تھی تجھ سے ستمگر بنی نہیں
ہم لوگ مطمئن ہیں قناعت پسند ہیں
گاؤں میں آب جو ہے سمندر بنی نہیں
ہم نے تو آزمائے سبھی موسموں کے رنگ
تصویرِ انتظار برابر بنی نہیں
ہیں دشتِ فکر و فن سے معانی نچوڑتے
یوں ہی زبان اپنی سخنور بنی نہیں
لوح جبیں پہ رقص ہے ابرِ سیاہ کا
وہ کہکشاں تھی میرا مقدر بنی نہیں
ہجرت کی شاہراہ پہ چھوڑ آئے آرزو
بکھری سی ریت میل کا پتھر بنی نہیں
شؔیدا وہی فراق وہی شامِ انتظار
حالت تمہاری آج بھی بہتر بنی نہیں

0
40