ہم گردشِ ایام پہ ٹھہرائے گئے ہیں
رہنے کو نہیں آئیں کہ ہم آئے گئے ہیں
کچھ تازہ خلاؤں کی صداؤں کا ملا رقص
کچھ نقش پرانے بھی مرے پائے گئے ہیں
چھاؤں میں ثمر دار سکوں سے نہ ستم پوچھ
موسم سے سرِ شاخِ شجر ڈھائے گئے ہیں
ہر شخص کی آنکھوں میں یہی عکسِ تحیر
خاک آئنے ہیں کس کے لئے لائے گئے ہیں
وہ بوڑھا شجر کس کی کہانی ہے سنائے
اس سمت جو اپنے ہی جواں سائے گئے ہیں
یہ چشمِ زمانہ بھی کرے اشک فشانی
جو رنگِ لہو ہجر بکف چھائے گئے ہیں
شؔیدا جو عقیدت کی نگاہیں ہیں فروزاں
ہم ہی ہیں کسی کو نہ کبھی بھائے گئے ہیں

0
21