ہم گردشِ ایام پہ ٹھہرائے گئے ہیں |
رہنے کو نہیں آئیں کہ ہم آئے گئے ہیں |
کچھ تازہ خلاؤں کی صداؤں کا ملا رقص |
کچھ نقش پرانے بھی مرے پائے گئے ہیں |
چھاؤں میں ثمر دار سکوں سے نہ ستم پوچھ |
موسم سے سرِ شاخِ شجر ڈھائے گئے ہیں |
ہر شخص کی آنکھوں میں یہی عکسِ تحیر |
خاک آئنے ہیں کس کے لئے لائے گئے ہیں |
وہ بوڑھا شجر کس کی کہانی ہے سنائے |
اس سمت جو اپنے ہی جواں سائے گئے ہیں |
یہ چشمِ زمانہ بھی کرے اشک فشانی |
جو رنگِ لہو ہجر بکف چھائے گئے ہیں |
شؔیدا جو عقیدت کی نگاہیں ہیں فروزاں |
ہم ہی ہیں کسی کو نہ کبھی بھائے گئے ہیں |
معلومات