بہت بدنام ہونا چاہتا ہوں
تماشا عام ہونا چاہتا ہوں
نزولِ غم ہے ساقی جام بھر دے
متاعِ شام ہونا چاہتا ہوں
درِ انصاف پر تالا چڑھا دو
سرِ الزام ہونا چاہتا ہوں
بہت آزادیاں دیکھی جنوں میں
اسیرِ دام ہونا چاہتا ہوں
دکانِ دل سے اب مجھ کو اتارو
ذرا نیلام ہونا چاہتا ہوں
میں خود کو نام دینا چاہتا ہوں
تمہارے نام ہونا چاہتا ہوں
محبت کھیل ہے شؔیدا تو کھیلوں
مگر ناکام ہونا چاہتا ہوں

0
40