کسی کی جنگ ہم کیوں لڑ رہے ہیں
پرائے مسئلے میں پڑ رہے ہیں
کسی کی راہ تکنا بھی سفر ہے
مری آنکھوں میں چھالے پڑ رہے ہیں
محبت کو ادھیڑیں کب تلک اب
نیا کوئی فسانہ گڑھ رہے ہیں
ابھی برسات کا موسم نہ لکھیں
ابھی ہم دشت و صحرا پڑھ رہے ہیں
ابھی سے دستکیں گھر واپسی کی!
ابھی ہم سیڑھیاں ہی چڑھ رہے ہیں
اترتا جائے عریانی کا موسم
درختوں سے بھی پتے جھڑ رہے ہیں
علی شیدؔا کوئی روکے بھلا کیوں
کوئی حد ہے کہ حد سے بڑھ رہے ہیں

0
28