اک دھواں سا جہاں میں رہتا ہوں
اپنے خالی مکاں میں رہتا ہوں
مجھ کو لے چل جہاں تری مرضی
تو جہاں ہے وہاں میں رہتا ہوں
اشک بن بن کے ہو رہا نیلام
درد و غم کی دکاں میں رہتا ہوں
اپنے حصے کا نام کب آئے
ان کہی داستاں میں رہتا ہوں
چاند نے پھر یہی کہا ہو گا
جھیل کے آبداں میں رہتا ہوں
بے گمانی کے اک جزیرے پر
اک گماں سا گماں میں رہتا ہوں
کُن فکاں سلسلہ کوئی شیؔدا
اور اس درمیاں میں رہتا ہوں

54