سایہ اپنا ہی تھا چل پڑا سر کے بل
ورنہ یاں ہم سفر کون ہے آج کل
کچھ نیا چاہئے عشق کے واسطے
خواب ہے وصل یا ہجر ہے سب خلل
کتنا لمبا سفر جھاڑ کر آگئے
اک صدی، سال بھر یا کہ دو چار پل
اس تعلق پہ بھی بات کوئی کرے
مسئلہ ہے مرا آپ کے پاس حل
ہا و ہو کی تھکن جب اتر جائے گی
اک صدا آئے گی چل مسافر نکل
ذکر ہی آپ کا فکر بھی آپکی
ورد جس کا نہیں کوئی نعم البدل
تنگ ہے یہ زمیں آسماں کی طرح
اپنا سایا بچھا اور شؔیدا ٹہل

0
15