گھر سے نکلے ہو تو رفتار پکڑ لی جائے
راہ دشوار کہ ہموار ، پکڑ لی جائے
دشت کاٹے تو ذرا خاک اڑا کر دیکھو
آبلہ پائی ء بیمار پکڑ لی جائے
ہمسفر کرلو ملے شور و فغانِ جنگل
شہر سنسان ہو، دیوار پکڑ لی جائے
اہلِ زر ہے تو خریدے گا جوانی شب کی
یہ ہے مجبور، سزاوار، پکڑ لی جائے
خود سے رشتہ نہ رہے ایسا نہ ہونے دینا
زندگی کتنی ہی بیزار، پکڑ لی جائے
خواب گر وصل کا بہلائے شبِ ہجراں میں
نیند کر جائے جو سرشار پکڑ لی جائے
اک یہی باعثِ رسوائی ہے شیدؔا غم میں
اشک کی بوند ہو یا دھار پکڑ لی جائے

0
62