بادِ صرصر کیا اٹھی صحرا سے گھر تک آگئی |
رقص کرکے چھت سے اتری صحنِ درتک آگئی |
گردشِ کون و مکاں میں ہم بھی شامل ہوگئے |
جنبشِ شوقِ جنوں جو دل سے سر تک آگئی |
ٹوٹتا رہتا ہے کاسہ اعتبارِ عشق میں |
مسئلہ ہے بات اپنی کوزہ گر تک آگئی |
ہے فلک زارِ دیارِ خواب، مسکن چاند کا |
چاندنی کب شب گزیدہ چشمِ تر تک آگئی |
اپنی عریانی کو پہنایا ہے خود ہم نے کفن |
اک سفر کی دھول تھی رختِ سفر تک آگئی |
کون سا موسم ہے چرچا ہے سہانی دھوپ کا |
ہجر زادہ ہوں تپش دل کے شجر تک آگئی |
آرزو میں ڈھل گئی شیؔدا محبت کی خلش |
آخری منظر سے تھی پہلی نظر تک آگئی |
معلومات