ہم کسی خواب کو لے کر ہی چلے ہیں صاحب |
دشت در دشت سرابوں میں پلے ہیں صاحب |
پُر سکوں دھوپ میں لے کر ہی سکھا دو پل بھر |
تیز بارش میں کئی روز جلے ہیں صاحب |
درد کی راہ میں پھولوں کی دُکانیں کھولی |
حادثے غم کے اسی طرح ٹلے ہیں صاحب |
جانے کس دوست کی خوشبو ہے بدن سے لپٹی |
دل کے دشمن بھی کبھی ملتے گلے ہیں صاحب |
ان کے دامن پہ مرے اشک ابھی تک تر ہیں |
یہ سبھی لوگ مگر کتنے بھلے ہیں صاحب |
دیکھتی بھیڑ رہی اپنا تماشہ دن بھر |
ہاتھ ہم نے بھی خسارے میں ملے ہیں صاحب |
عکس اب ڈھونڈ رہے اپنا جو شیؔدا حیراں |
کِس کا آئینہ ہے جس میں کہ ڈھلے ہیں صاحب |
معلومات