دل کے زندان سے یک مشت نکالی جائے
ہم سے اب یاد تمہاری نہ سنبھالی جائے
خانۂ وصل گمان اب جو مقفل ہونا
آخری چاہ کی میت ہے اٹھالی جائے
لوگ آنکھوں میں نمی دیکھیں تو رسوائی ہے
ایسے خالی ترے در سے نہ سوالی جائے
اب نہ جنبش ہے یہاں کوئی نہ روشن باتی
خاک آنکھوں میں کسی دشت کی ڈالی جائے
دکھ کے جنگل میں کہاں چاندنکل آتا ہے
فاقہ مستوں سے کہو عید منالی جائے
موسمِ ہجر کے بادل ہیں ذرا چھٹنے دیں
وصل کی دھوپ پہ کیچڑ نہ اُچھالی جائے
رقصِ بسمل ہے نہیں سہنا اذیت شؔیدا
دل کی ہر شاخِ ثمربار جُھکالی جائے

0
1
37
بہت خوب

0