آج پھر دشت ہار کر آئے
رہ نوردی سنوار کر آئے
زندگی کی بدل گئی نیّت
ہاتھ تربت پہ مار کر آئے
ہم بھی تھے آئنوں کے میلے میں
خود سے آنکھیں نہ چار کر آئے
بالمقابل ہوئے لب و رخسار
آنکھ تھی آنکھ مار کر آئے
آج پھر جان جانے والی تھی
آج پھر دل پہ وار کر آئے
ایک دن تھا تو خرچ کر ڈالا
ایک شب تھی گزار کر آئے
کون دیکھے گا اب ہمیں شیدؔا
بے لباسی اتار کر آئے
*علی شیدؔا*

0
68