زندگی اشتہار میں رکھ دو
سرخیوں کی قطار میں رکھ دو
ہم زمیں زاد بھی ہیں سیارے
آسمانو ! شمار میں رکھ دو
دھوپ تھوڑی بچائے رکھ لینا
تھوڑی چھاؤں حصار میں رکھ دو
دل ابھی جو ہوا نہیں ہلکا
اشک واپس غبار میں رکھ دو
دشت دامن بچھائے بیٹھا ہے
تشنگی کو سوار میں رکھ دو
آخری بار دل کو ہارا ہے
آخری جیت ہار میں رکھ دو
آؤ پیدل چلیں علی شیدؔا
جاؤ سامان کار میں رکھ دو

0
55